میرے کام کا کیا ہوا؟

تین چار دفعہ چادر کی زیارت نصیب ہونے کے بعد کہیں جاکر پہلی مرتبہ صاحب سلامت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا توہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ،نام ان کا سلامت تھا اور یوں دفتری رموز کے مطابق اسے سلامت صاحب کے نام سے پکارنازیادہ موزوں تھا تاہم انہوںنے خود یا ان کے شناسا ﺅںنے ان کیلئے صاحب سلامت کا نام پسندکیا ،کیونکہ یہ وزن اورترکیب میں بادشاہ سلامت کے ہم آواز ہے اور ان کے شاہانہ انداز کے مطابق بھی۔ جس طرح تمام دریا کسی نہ کسی مرحلے پر سمندر برد ہوجاتے ہیں اور ان کاآخری ٹھکانہ یا مدفن سمندر بن جاتا ہے اس طرح اس سرکاری دفتر میںتمام فائلوں کا آخری ٹھکانہ یا مدفن صاحب سلامت کی میز تھی۔ جس پر زیادہ تر وقت ان کی چادر کے سامنے فائلوں کاڈھیر پڑا ہوا اور کبھی کبھار صاحب سلامت بھی چادر کی جگہ سنبھال لیتے یہ سائلین اور حاملین فائل کیلئے عید سے کم تر موقع نہ ہوتا۔جوتے گھساگھسا کر اور پیسے کرائے پرلٹا لٹا کر ہی صاحب سلامت کی ایک دید کبھی نصیب ہوجاتی توسائل کی عید ہوجاتی اور وہ عیدی لٹانے پر تیار ہی رہتا کیونکہ اس عید سے پہلے اس نے جو بھوک پیاس،مشقت اور کھٹن مراحل سر کئے ہوتے ہیں اس کے خاتمے کی امید نظر آنے پر عید کا ہونا یقینی تھا اگرچہ عید کا چاند صاحب سلامت کی صورت میں نمودار ہوکرعید کامزہ کر کرہ کردیتا۔ جس طرح ہمارے ہاں تھوڑے ٹیکس سے بچنے کیلئے زیادہ پیسے خرچ کرکے بھی اپنی عقل پرماتم کرنے کی بجائے داد وصول کرنے کی امید ر کھی جاتی ہے اسی طرح صاحب سلامت چھوٹے سے کام کو ٹالنے اور کام سے پہلو تہی کرکے صاف بچنے کیلئے زیادہ مشقت اٹھا کر ساتھیوں کو تحسین طلب نگاہوں سے دیکھتے اور سمجھتے کہ اس نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اور ساتھی بھی ان کی حوصلہ افزائی بلکہ عزت افزائی کیلے پکار اٹھتے ، واہ صاحب سلامت کیا دماغ پایا ہواہے۔ اور سچ پوچھئے تویہ ایک اہم سوال ہے کہ صاحب سلامت نے کیا دماغ پایا بھی ہے کہ نہیں؟کیونکہ جو کام دماغ سے کرنے کے ہوتے ہیں وہ تو صاحب سلامت دوسروں سے لینے کے ماہر ہیں ۔ان کو شاید اس بات میں پختہ یقین ہے کہ دماغ خرچ کرنے سے کم ہوگا اور وہ دماغ کوآنے والے وقتوں کیلئے بچا کر رکھنے کی کوشش میں ہیں۔یعنی اس قیمتی متاع کو وہ کار سرکار میں لٹانے کے قائل نہیں۔ اس لئے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جس قدر منصوبے زیر غور ہیں اور ان پر کا غذ کے پلندوں کے پلندے سیاہ کئے ہوئے ہیں ا ن میں شاید دماغ کا استعمال بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کے مرحلے میں ہوگا۔اس لئے تو دفتر کے ساتھی ان سے دفتر کے موجودہ کام کے بارے میں مشورہ کرنے کی بجائے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے حوالے سے مشورے طلب کرتے ہیں اور صاحب سلامت نے اس میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ اپنی سیٹ پر چادر کو فرائض سونپ کر وہ تمام دن دوست و احباب کی سیٹوں کے سامنے پڑی کرسی پر براجماں ہوتے ہیں اور قہوے و چائے کی پیالیوں کی گردش سے لطف اندوز ہونے کے دوران روشن مستقبل کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔صاحب سلامت کے پاس کام ہو یا نہ ہو مگر دفتر کے معاونین کے لئے کام ڈھونڈنے میں ان کو ملکہ حاصل ہے اور آپ کو اس مخصوص سرکاری دفتر میں جس قدر معاونین دوڑتے ہانپتے نظر آتے ہیں وہ سب صاحب سلامت کے کاموں میں مصرو ف ہوتے ہیں ایک ان کیلئے قہوے کی بہترین قسم ڈھونڈنے بازار کا رخ کئے ہوئے ہیں تو دوسرا ان کے گھر میں موجود مرغیوں کیلئے معیاری مرغی دانے کا کھوج لگانے میں مصروف ہے تیسرے کو صاحب سلامت کی قیمتی چادر کو دھلائی کے دوران خراب ہونے سے بچانے کیلئے نسخے کی تلاش ہے۔اور یہ سلسلہ دفتر میں ہر عام و خاص تک پھیلا ہواہے۔ اسلئے تو صاحب سلامت کا دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کے بعدپہلاجملہ یہی ہوتا ہے کہ میرے کام کا کیا ہوا؟۔یوںاس مخصوص سرکاری دفتر میں صاحب سلامت خو د کام نہ کرنے اور دوسروں کوبھی کام سے نکالنے کا فریضہ تندہی اور دلجمعی کے ساتھ انجام دینے میں مصروف ہیں۔