عوامی نم آئندہ۔۔۔۔۔

قومی اسمبلی میں شور شرابا، اودھم ‘ غل غپاڑہ ا ور دھینگا مشتی پر کچھ ناسمجھ حلقوںنے ناپسندیدگی کااظہار کیا ،اب ان کو کون سمجھائے کہ ہمارے قومی مزاج شناس ماہرین کے نزدیک یہ ایک قابل دید نظارہ تھا اور مذکورہ بالا عناصریعنی ،شورشرابا، اودھم، غل غپاڑہ اور دھینگامشتی تو وہ بنیادی اجزاءہیں جن کے بے ہنگم ملاپ سے ہمارے ایوان کی تکمیل ہوتی ہے یعنی بقول شاعر
یہ چار عناصر ہوں توبنتا ہے تب ایوان
اگر کسی کو ہمارے ہاں شرح خواندگی کے حوالے سے معتبر معلومات ہوں،کسی بھی منصب کے ساتھ انصاف کرنے کو سخت ناپسند کرنے کی ہماری خصلت سے آگاہ ہو، اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول میں ہماری دلچسپی کے بارے میں جانتا ہو، دوسروں کیلئے بہتر نمونہ بننے کی بجائے دوسرے لوگوں سے بہتر نمونہ بننے کی توقع رکھنے کی ہماری عادت سے واقفیت رکھتا ہو، بات میں وزن ڈالنے کیلئے دلیل کی طاقت کی بجائے پھیپھڑوں کی طاقت اور زور پر یقین رکھنے کی ہماری ہمہ گیر پالیسی کے بارے میں جانتا ہوتو ان کیلئے یہ مناظر دل باغ باغ کرنے والے ہو سکتے ہیں۔جن لوگوں نے قومی اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی کھڑکی توڑ پرفارمنس پر تنقید اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے ان حضرات کو چاہئے کہ وہ ہمارے قومی مزاج کو سمجھنے کا بنیادی کورس ضرور کریں جس میں ان تمام اجزائے ترکیبی کا تذکرہ ہے جن کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔ نہ جانے ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جیسے بھی ہیں ہماری نمائندگی کرنے والے ہم جیسے نہ ہوں، یعنی ہم صبر و تحمل کے دشمن ہوں اور ہماری نمائندگی کرنے والے صبر و تحمل کے پیکر ، ہم بے ترتیبی کے خوگر اور نزاکت سے بھاگنے والے اور وہ ترتیب و نزاکت کا نمونہ ،ہم تھوڑی سی بات پر آسمان سر پراٹھا کر شور مچانے والے اور وہ بڑی بات کو ہضم کرنے اور تدبر کا مظاہرہ کرنے والے۔ہم نمائش اور ریا کاری پر عمل پیرا اور وہ بے تکلفی اور خلوص سے لبریز۔
اب آپ ہی کہئے اگر وہ ہم جیسے نہیں تو ان کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری نمائندگی کریں، کیا کبوتر کبھی کوﺅں کی نمائندہ ہو سکتی ہے اور کوے شاہین کی نمائندگی کا حق رکھتے ہیں۔شیر اور بھیڑیا ہرنوں کے حقوق کا علمبردار ہوسکتا ہے،بات ہے سمجھنے کی ،اسلئے تو ہم نے ان کو چنا ہے کہ وہ ہم جیسے ہیں ۔
 کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
مطلب یہ کہ اپنی ناراضگی کو برطرف کریں، خوش ہوں کہ ہمارے نمائندے بالکل ہم جیسے ہیں ۔ ہمارے بازار کا رنگ ، ہماری گلی محلے کی زبان، ہمارے لاری اڈے کا ماحول، ہمارے مچھلی بازار کا شور رشرابا اور بہت کچھ ‘ہمارے نمائندے بخوبی قومی ایوانوں میں ملک کے چپے چپے کی جھلک دکھانے میں مصروف ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں کہ ہمارے ایوان میں مچھلی بازار کا سماں ہے ،کیوں مچھلی بازار کوئی بری جگہ ہے،اس موسم میں کون ہوگا جو مچھلی بازار جانے کی تڑپ نہ رکھتا ہو بشرطیکہ جیب اجازت دے۔ بس اڈے کا ماحول اگر ہمارے ایوان میں بھی جھلکے تو اس سے ایوان کی وقعت میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ الٹا اس سے ہمارے بس اڈوں کو بین الاقوامی شہرت ملنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں، اب ان لوگوں کو کس زبان میں سمجھایا جائے کہ اگر ایوان میں بازاری زبان استعمال ہورہی ہے تواس کا مثبت پہلو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے بازاروں میں بولنے والی زبان کا معیار اس قدر بلند ہوا ہے کہ اسے ایوان کی زینت بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے ایوان ہمارے آئینہ دار ہیں اب آئینے کے سامنے جوبھی موجود ہو اسی کی صورت اس میں نظر آئے گی اور پھر جیسی صورت ہوگی ویسی ہی نظر آئے گی۔یعنی بے چاری آئینہ پر الزام لگانے کی بجائے ہم خود کو کیوں ایسا نہیں بناتے کہ آئینے میں دیکھنے پر دل خو ش ہو۔