یہ کونسی مخلوق ہے؟۔۔۔۔

وطن عزیز کے حوالے سے کسی کے جرنل نالج کا امتحان لینا ہوتا ہے تو کچھ اس قسم کے سوالا ت ہوتے ہیں، کہ پاکستان کا قومی پھول کونسا ہے، پاکستان کے قومی جانور کا نام بتائیے، کس کھیل کوپاکستان کے قومی کھیل کا درجہ حاصل ہے وغیرہ وغیرہ، تاہم آج ہم جس مخلوق کے بارے میںآپ کی ذہانت کاامتحان لینا چاہتے ہیں اسے بیک وقت قومی ، عوامی اور سیاسی حوالوں سے اہمیت حاصل ہے۔اس کا عوام کے ساتھ چولی دامن کاساتھ ہے یعنی عوام اس کے بغیر ادھورے اور یہ عوام کے بغیر نامکمل ،اس ضمن میںیہ عوام کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ انہی سے منسوب ایک مخلوق کا چاروں طرف چرچا ہے، اس مخلوق کی پرواز شاہین سے بلند تر اور جبڑے شیر سے بھی زیادہ خطرناک، اب آپ سوچتے رہے ہوںگے کہ اس کا کیا مطلب،یہ کیا مذاق ہے ‘ پرواز کے قابل ہے تو پھر اس کی چونچ ہونی چاہئے کہ پرندے اکثر صاحبان چونچ ہوتے ہیں اور اگر یہ ایک عدد خونخوار اور مضبوط جبڑے کی مالک مخلوق ہے تو پھر یہ پرواز کیسے کریگی کہ جانور تو اس صفت سے عاری ہیں۔یعنی آثار و قرائن کی روشنی میں اگر یہ پرواز کے قابل ہے تو پرندہ ہوا ورنہ خونخوا ر جبڑے اس کو جانوروں کے کھاتے میں ڈالنے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے، اس مخلوق کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا احاطہ ایک کالم میں کرنا مشکل ہے تاہم کوشش کرنے میں کیا حرج ہے ۔ماہرین اس کے پنجوں میں برقی رو یا بجلی کی موجودگی کے بھی قائل ہیں کیونکہ یہ مخلوق جس کو پنجوں میں جکڑتی ہے تو اس کے چاروں طبق روشن ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک طبق کے روشن ہونے کیلئے بجلی اور قمقموں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاںتو چاروں طبق روشن کرنے کا معاملہ ہے ۔جی ہاں پنجوں نے ایک بار پھر مغالطہ پیدا کیا کہ پنجے تو پرندوں کے ہوتے ہیں۔جانور ہوتاتو پھر اس کے پیروں کی بات ہوتی یعنی معاملہ ایک بار پھر پرندوں کے حق میں ہوتا نظر آرہا ہے ۔مگریہاں ایک اور باریک نکتے کی طرف ماہرین اشارہ کرتے ہیں کہ آج تک ایسا جانور یا پرندہ موجود ہی نہیں جو برقی رو سے لیس ہو تو پھر اس کا مطلب کیا ہوا۔جی ہاں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب بات آبی مخلوق کی طرف چل نکلی ہے کہ بجلی کے جھٹکے دینے والی مچھلیوں کی موجودگی کسی بھی شک و شبے سے بالا تر ہے اور یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ زیر آب کئی ایسی مخلوق موجود ہیں جنہیں چھونے والوںکو بجلی کا شدید جھٹکالگتا ہے۔صبر کا دامن تھام کر رہئے کہ ابھی اس مخلوق کے بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے۔جس طرح سورج یا آگ کی تپش سے اشیاءتپنے لگتی ہیں اور انہیں ہاتھ لگاﺅ تو ہاتھوں پر چھالے پڑنے کا خطرہ ہوتاہے بالکل اسی طرح یہ مخلوق اشیاءکودھکتے کوئلوں میں بدل دیتی ہے چاہے وہ مائع ہو کہ ٹھوس۔ یعنی جس چیز پر اس مخلوق کے اثرات مرتب ہوجائیں پھر انہیں ہاتھ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس کے لئے بڑا دل گردہ چاہئے جس پر کثیر لاگت آتی ہے اور ہم جیسے عام لوگوں کے پاس جو دل گردے ہیں وہ چھوٹے سائز کے ہیں۔اس لئے جب بھی آپ کو یہ محسوس ہو کہ فلاں چیز اس مخلوق کے زیر اثر ہے ا س کو چھونے سے حتی الوسع گریز کریں۔اب اس کی موجودگی کے حوالے سے کچھ معلوما ت جرنل نالج میں اضافے کی نیت سے شیئر کرتا ہوں کہ یہ مخلوق کہاں پائی جاتی ہے یعنی یہ پہاڑوں پر گھونسلے بناتی ہے ‘میدانوں میں گزر بسرکرنے والی ہے یا پھرزیر آب سمندر میں یہ ٹھکانہ کرتی ہے۔ توآپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آپ کو اس مخلوق سے ملنے نہ تو صحراﺅں کی خاک چھاننی ہے اور نہ ہی سمندروںکا سینہ چیرنا ہوگا۔ بلکہ آپ سیدھا بازار جائیں اور کسی بھی دکان پر آپ کا پالا اس مخلوق سے ہی پڑے گا ،تاہم اس کے لئے آپ کا عوام میں سے ہونا ضروری ہے ، دوسری صورت میں اگرآپ عوام میں سے نہیں خواص میں سے ہیں تو پھر آپ کا یہ سوال بجا ہے کہ یہ مہنگائی کس جانور کا نام ہے۔