یہ کہانی پھر صحیح

تھوڑی سی مرمت کاپتہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی زحمت بن جائے گی، ایک دو جگہ سے اکھڑاہوا پلستر اور دروازے کی شکستہ چوکاٹ سے نجات پانے کے لئے مطلوبہ مہارت رکھنے والی شخصیات کی تلاش شروع کر دی،بے روزگاری کے اس دور میں جب کورونا نے فراغت کے سندیسے دینے شروع کئے ہیں، کسی کے فارغ ملنے کی آس لگائے مہینہ گزر گیا شاید جو فارغ تھے وہ بھی اس کو صیغہ راز میں رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے تاکہ قدر و قیمت میں کمی کا اندیشہ نہ رہے۔یار دوستوں کی سفارش سے چند ایک سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا تاہم کئی حضرات پہلی ملاقات میں فری ہونے اور حامی بھرنے کو  اپنی شان میں گستاخی سمجھتے تھے اور رکھ رکھاؤ کے قائل تھے اور اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ان کی خدمات کی ہمیں ضرورت تھی اور ضرورت مند کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے  اور کچھ ان کو آتا تھا یا نہیں اس ہنر میں وہ طاق تھے۔پس ہمیں ایک نہیں کئی مرتبہ واپس لوٹایا گیا تاکہ ہم ان کی خدمات حاصل ہونے کے بعد حرف شکایت زبان پر لانے کے قابل نہ ہوں۔ چاہے وہ ایک گھنٹے کا کام دنوں میں اور دنوں کے کام کو مہینے تک کھینچ کر لمبا کرے اور جب وہ لحظوں کاکام ہفتوں پر محیط کرنے کی قدرت رکھتے ہوں تو ایسے میں ان کا فارغ ملنا واقعی کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ بالآخر وہ گھڑی بھی آگئی جب مجھے ان کے استقبال کا موقع ملا، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا،اول تو میں سمجھا کہ شاید میری نظروں کو دھوکہ ہے کہ مجھے ایک شخص تین تین نظر آرہے ہیں مگر معلوم ہوا کہ حقیقت میں وہ پورے چھ حضرات ہی تھے، تین  صاحبان تین فٹ کی پلستر مرمت کرنے کے لئے اور تین حضرات دروازے کے چوکاٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے۔ایسے میں ہمیں یہ سوال کرنے کی جرات نہ ہو سکی کہ کام کتنا ہے اور یہ کتنے آدمی ہیں۔اب معاملات ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگئے تھے گویا انہوں نے آتے ہی ٹیک اور کر لیا تھا،اب جتنے گیند تھے وہ سارے ہمارے کورٹ میں تھے ہر چیز کیلئے ہم جوابدہ تھے اور وہ بری الذمہ۔یہ تھاان کے کام کا پہلا اصول اور یہ ان کے لیڈر نے پہلے ہی بتادیا بلکہ خاص طور پر جتا دیا۔ اب آنے والے دنوں میں اس پراجیکٹ میں جو تاخیر ہونی ہے اس کے ذمہ دار ہم ہونگے جو کوتاہی ہوگی وہ ہماری ہوگی جو کمی ہوگی وہ ہمارے کھاتے میں جائے گی۔یعنی انہوں نے ہمیں کس کس کر باندھنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور ہم نے بھی ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر فرمائش کو ہم نے آزمائش سمجھ کر تندہی کے ساتھ پورا کیا۔گھر کے ہر فرد کو بھی خاص طور پر اکھٹا کرکے لیکچر دیا کہ جس کسی سے اگر کوئی لغرش سرزد ہوئی تو معافی نہیں ملے گی۔اگر چہ ہم نے ان کی آمد سے قبل ہی مطلوبہ سامان اور ضروریات کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تسلی بھی کی تھی مگر اب معلوم ہوا کہ ہماری تسلی ان کی تسلی کے آگے کچھ نہیں انہوں نے ہر چیز میں کتنے میم اور کتنے میخ نکالے اس کا تذکرہ اس مختصر کالم میں ممکن نہیں۔ان میخوں کا وزن منوں ٹنوں میں ہوسکتا ہے۔یعنی پہلا دن ہماری طرف سے خیر سگالی کے جذبات اور ان کی طرف سے ہمیں ہماری اوقات یاد دلانے تک محدود رہا۔ یہ بھی غینمت تھی انہوں نے اپنے اوزار ہمارے غریب خانے میں رکھ کر ہم پر یہ جتا دیا کہ بہت سے لوگوں کو انکار کرکے انہوں نے ہمیں جو وقت دیااس پر ہم نسل درنسل شکر کریں، پہلے دن انہوں نے اپنے  ہاتھوں کو میلا کرنے سے گریز کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دو مرتبہ کولڈ ڈرنک،  دو  مرتبہ چائے او دوپہر کو خاص طور پر تیار کردہ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے پر اکتفا کیا۔ آگے ہمارے ساتھ کیا ہوایہ پھر کہانی پھر صحیح۔۔۔