وہ آئے گھر میں ہمارے۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی سی مرمت کاپتہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی زحمت بن جائے گی ، جی ہاں، پچھلے کالم کا آغاز انہی الفاظ سے تھا اور اختتام اس جملے پر تھا کہ” آگے ہمارے ساتھ کیا ہوایہ کہانی پھر صحیح۔۔۔تو پچھلی کہانی دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کس طرح تین فٹ کے اکھڑے ہوئے پلستر اور بوسیدہ چوکاٹ کی مرمت میں ہماری درگت کی کہانی پوشیدہ تھی۔ اول تو مطلوبہ مہارت رکھنے والے حضرات جو روزانہ کسی نہ کسی گلی کی نکر پر چہرہ ضرور دکھاتے تھے ایسے غائب ہوئے کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیںاور ان کے غائب ہونے کی وجہ شاید یہی تھی کہ ہمیں ان کی خدمات کی ضرورت اور ان کو اس کی بھنک پڑ گئی تھی۔ خیر وہ آخر کار طویل دعاﺅں اور کئی کرم فرماﺅں کی پے درپے سفارشوں سے ہاتھ آہی گئے اور پھر یوں سمجھو کہ وہ بادشاہ اور ہم رعایا کے کردارا میں ڈھل گئے۔جو حکم کرتے ہم بجا لاتے تاکہ ان کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے کام کو ٹھوکر مار کر ہمارے خوابوں کو چکنا چور کر دیں۔ اکھڑے پلستر اور بوسیدہ چوکاٹ کو مرمت کرنے کے ماہرین ہمارے لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ماہرین ثابت ہوئے، ہمارے گھر کا بجٹ ان کے کنٹرول میں آگیا تھا اور بچوں بڑوں پر گھریلو مرمت کے خصوصی ٹیکس لگائے بغیر چارہ نہیں بنا۔ بچوں کے جیب خرچ میں کٹوتی کرنی پڑی، خاتون خانہ کے کئی اہم اخراجات بھی ان کی آمد کی بھینٹ چڑھ گئے اور ہماری تو کچھ نہ کہیے۔ اب ہماری یہ حالت تھی کہ ”وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے، کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں“جس کا حلیہ ہی بگڑ گیا تھا۔ تھوڑی سی مرمت کیلئے اس قدر سامان ہم سے منگوایا گیا کہ وہ جا بجا بکھرا پڑا تھا اس لئے گھر کا ایک پورشن آئے ہوئے ماہرین اور ان کو مطلوب سامان مرمت کیلئے مختص کردیا گیا۔ ان ماہرین نے شاید باہمی مشورے سے یہ طے کیا تھا کہ کس طرح اس تھوڑے سے نظر آنے والے منصوبے کو حد نظر تک پھیلایا جائے اور جلد ہی ہماری وہ حالت ہوئی کہ ہم کمبل کو چھوڑنا چاہیں بھی تو کمبل ہمیں نہ چھوڑے۔ ان ماہرین نے ہم سے جو سامان منگوایا جان بوجھ کر کوئی ایسی پلاننگ کی کہ ہر سامان کو تین مرتبہ تبدیل کرنا پڑا اور باوجود اس کے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہوتا رہا ہم پر پھر بھی یہ الزامات ان کی طرف سے مسلسل لگتے رہے کہ یہ کام میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں کہ ہم کیوں ان ماہرین کو ان کی پسند کے مطابق مرمتی سامان فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ آپ کے ساتھ اپنا دکھڑ ا شیئر کرتے ہوئے یہ بتادیں کہ تین فٹ کے پلستر کی مرمت کیلئے ہم نے دفتر سے جو تین دن کی چھٹی لی تھی وہ کم پڑ گئی اور آج ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے کہ ہم نہ دفتر کے رہے اور نہ گھر کے۔۔ دفتر سے تو گئے گھر میں بھی رہنے کے قابل اس لئے نہیں رہے کہ ابھی گھر میں قدم نہیں رکھا کہ ماہرین نے دروازے سے واپس بازارا بھجوا دیا اور ساتھ ماہرانہ رسم خط میں جسے ہم پڑھنے سے قاصر تھے ‘اپنے خاص دکانداروں کے پاس بھجواتے‘ جن کیلئے کوڈ ورڈز لکھے ہوتے تھے کہ اس گاہک کو کیا دینا ہے اور کیا نہیں دینا۔جو کام کی چیز ہوتی وہ جان بوجھ کر دکاندار نہ دیتے اور جو چیز دیتے وہ ہم واپس لانے کیلئے ہی گھر تک سفر کرتے۔یوں یہ برائے نام مرمت ہمارے لئے قید بامشقت ثابت ہونے لگی ۔دو ہفتے گزرنے کے بعد دفتر سے فون پر فون آنے لگے کہ آپ تو کہتے تھے تین گھنٹے کا کام ہے یہ تو تین ہفتے ہوگئے۔ اب ان کوکیا سمجھاتاکہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اب اگر ان ماہرین کو کام ختم کئے بغیر رخصت نہ کرتا تو دفتر سے میری رخصتی یقینی تھی، پس میرے ہاتھ جوڑنے پر وہ کام ادھورا چھوڑ کر تین ہفتوں کی دیہاڑی اور مجھے چونا لگا کر چلے گئے اور جاتے جاتے یہ قیمتی مشورہ بھی دے گئے کہ تمہارے گھر کو نہیں تمہارے دماغ کو مرمت کی ضرورت ہے۔