غ7 سربراہی اجلاس میں امریکہ کے مغربی اتحادی اپنے مشترکہ


 ایک ایسے وقت میں جب 19 مئی کو جاپان کے شہر ہیروشیما میں 49ویں مستقبل پر غور کر رہے تھے اور یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کر رہے تھے تو جاپان سے ہزاروں میل دور چینی صدر شی جن پنگ ،ژیان شہر میں چین وسطی ایشیا سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، وسط ایشیائی ریاستوں کی مالی استعداد بڑھانے کے لئے اقتصادی گرانٹس کی پیشکش کر رہے تھے۔ مغربی میڈیا، دونوں واقعات کا موازنہ کرتے ہوئے، یہ خیال پیش کرتا رہا کہ چین سابق سوویت جمہوریاﺅں پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر رہا ہے کیونکہ روس یوکرین کے تنازع میں مصروف ہے ۔تاہم چین وسطی ایشیا میں 20 سال سے موجود ہے، اور چین سینٹرل ایشیا کی تجارت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چین وسطی ایشیا سربراہی اجلاس میں تمام پانچ سابق سوویت جمہوریہ: قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے شرکت کی۔ تقریب میں شی کی تقریر میں تمام چھ ممالک کی طرف سے آزادانہ طور پر منتخب کردہ ترقی کے راستے کا وعدہ کیا گیا تھا جس میں ان کی خودمختاری، سلامتی، آزادی اور علاقائی سالمیت کے احترام اور تحفظ پر توجہ دی گئی تھی۔ چین وسطی ایشیا سمٹ کے اعلامیہ میں شریک ممالک نے تجارت بڑھانے، ریل اور سڑک کے رابطوں کو فروغ دینے، پروازوں کے رابطوں کو بڑھانے اور چین، کرغزستان اور ازبکستان کو ملانے والی سرحد پار ریلوے کی تعمیر کو تیز کرنے پر اتفاق کیاانہوں نے فوسل فیول، قابل تجدید توانائی، تعلیم، سائنس، سیاحت اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے طریقہ کار کی منظوری دی۔ انہوں نے مزید زرعی تعاون کے امکانات تلاش کرنے کا بھی فیصلہ کیا، اور چین نے وسطی ایشیا سے زرعی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین وسطی ایشیائی ممالک کو 26 بلین یوآن فنانسنگ سپورٹ اور گرانٹ فراہم کرے گا۔چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارت گزشتہ سال 70 بلین ڈالر کی نئی حد کو چھو چکی ہے، جس میں قازقستان کا حصہ 31 بلین ڈالر ہے۔ ہیروشیما میں رہتے ہوئے، G7 نے یوکرین کو تعاون کی پیشکش کی، جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کی طرف تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلا ﺅکی کوششوں کو مضبوط کرنے کا عہد کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے بارے میں گفتگو ہیروشیما میں ہوئی تھی جو امریکہ کی ایٹمی طاقت کا پہلا نشانہ بنی تھی۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چین نے اپنی مصروفیات کے ساتھ وسائل سے مالا مال خطوں میں سیاسی اثر و رسوخ اور توانائی کے اثاثوں کی دوڑ میں خود کو سب سے آگے رکھا ہے جب کہ روس یوکرین میں اپنی جنگ میں مصروف ہے ۔ یقین کریں کہ جب تک گلوبل ساﺅتھ کے تناظر کا تعلق ہے روس اور چین ایک صفحے پر ہیں، اور وسطی ایشیا میں دونوں کے متوازی دائرے ہیں جب کہ امریکہ کو اس خطے میں چین اور روس جیسا اثر رسوخ نہیں رکھتا۔ روس اس خطے سے تاریخ، زبان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی بڑی لیبر فورس کے ذریعے جڑا ہوا ہے جو روسی شہروں میں کام کرتی ہے اور اپنے آبائی ممالک کو بھاری ترسیلات بھیجتی ہے جبکہ چین وسط ایشیائی معیشت میں مسلسل سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کے برعکس امریکہ جو کہ بدلے میں رقم کی پیشکش کرتا ہے ممالک سے فوجی اڈے بھی مانگتا ہے ۔امریکہ نے ماضی میں این جی اوز کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں کی سماجی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی ہے لیکن 2010 میں غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز کے خلاف کریک ڈاﺅن نے امریکہ کی سیاسی بنیاد کو نقصان پہنچایا۔ وسطی ایشیائی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کسی تیسرے ملک کے خلاف مدد کا مطالبہ کیے بغیر وسطی ایشیائی ریاستوں کو تجارتی اور مالی مدد کی پیشکش کر رہا ہے۔باہمی فائدے پر مبنی یہ جیت کا تعاون چین کا نیو ورلڈ آرڈر کا ورژن ہے۔ چین جہاں کہیں بھی کسی بھی ملک میں مشغول ہے، وہ باہمی فائدے کی بنیاد پر مذاکرات کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ اس لیے چین تعاون کے بدلے خود غرضی کے مطالبات سے باز رہنے کی ایک نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔ چین وسطی ایشیا سربراہی اجلاس باہمی تعاون، خوشحال، ہم آہنگی اور اچھی طرح سے جڑے ہوئے وسطی ایشیا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔(بشکریہ ٹریبیون، تحریر: شازیہ انور چیمہ، ترجمہ: ابوالحسن امام)