روسی تیل کا انتظار، طیب اردوان کی مقبولیت 

 پشاورہائی کورٹ کی چیف جسٹس مسرت ہلالی صاحبہ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ جیلوں میں ہم سے زیادہ قیدیوں کو جیلر سزادیتاہے۔اس ملک کاہر حکمران کسی نہ کسی وقت جیل میں بھی ضرور رہا ہے لہٰذا جو کچھ جیل کے اندرہوتا ہے اس کا وہ خود بھی چشم دید گواہ ہے افسوس کا مقام ہے کہ اس حقیقت کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی صدق دل سے جیل کے نظام میں اصلاحات لانے کی اس وقت کوشش نہیں کی کہ جب وہ ایوان اقتدار میں تھے۔ ایک سے زیادہ کمیشن بھی بنے ہیں کہ وہ جیل خانوں کی بابت ان امور کی نشان دہی کریں کہ جن میں اصلاحات کی جائیں ان کمیشنوں کی رپورٹوں پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیل خانوں پر ایک عرصہ دراز سے مقامی افسران یعنی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر اچانک بغیر پیشگی اطلاع کے یہ جاننے کیلئے چھاپے بھی نہیں ما ر تے 
کہ کیا جیل کے حکام جیل مینوئل jail manualمیں درج ہدایات کے مطابق جیل کا اندرونی نظام چلا رہے ہیں یا نہیں ۔ان وجوہات سے جیل کے اندر قیدیوں سے اکثر بڑا ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اور اب ذرا دیگر اہم امور پر اگر ایک سرسری نظر ڈال دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ روس سے پاکستان کے لئے ایک لاکھ ٹن خام تیل لانے والا روسی جہاز مصر پہنچ چکا ہے چونکہ سویز کنال پر بحری جہازوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے اس وجہ سے اس تیل کو کراچی کی قاسم پورٹ تک پہنچنے میں شاید دس روز لگ جائیں۔ یاد رہے کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کیلے سوئز کنال کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ عمان سے آگے کراچی تک اس تیل کو چھوٹے جہازوں میں منتقل کر کے پہنچایا جائے گا کہ بڑے جہاز کراچی کی بندرگاہوں میں لنگر انداز نہیں ہو سکتے اس خام تیل کو پاکستان کے اندر ریفائنریو ں میں ریفائن کر کے قابل استعمال کیا جائے گا۔ترکیہ میں رن آف الیکشن میں طیب اردوان کا بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر تیسری مرتبہ صدر بن جانا ان کی اپنے عوام میں مقبولیت کا بین ثبوت ہے۔ وہ اب 2028ءتک ترکی کے صدر رہیں گے ۔ان کو قدرت نے اپنے عوام کی بہتری کیلے کام کرنے کا ایک نادر لمبا موقع فراہم کیاہے۔اب یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے عوام کی توقعات پر پورا اتریں۔ ویسے اگر بین الاقوامی حالا ت کے تناظر میں دیکھا جائے تو رجب طیب اردوان کی کامیابی کے یہاں بھی دور رس اثرات نظر آئیں گے ‘ کیونکہ وہ ایک فعال اور موثر کردار رکھنے والے قائد ہیں اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے خائف ہیں۔ اب تو یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ رجب طیب اردوان نئے دور صدارت میں کس قسم کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں‘ اب تک انہوںنے بہت زیرک اور ہوشیار سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ اس نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رکھے اور ساتھ یوکرین کی مدد بھی کی۔ امریکہ کے نیٹو اتحادی بھی ہیں اور روس سے میزائل دفاعی نظام بھی حاصل کر چکے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہو گاکہ رجب طیب اردوان کی صورت میں ترکیہ کو ایک معاملہ فہم اور دور اندیش رہنما ملا ہے جو ترکیہ کو ترقی کی طرف لے جا رہا ہے ۔