گڈگورننس کا خواب؟

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے اضلاع میں  امن عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے پولیس کی معاونت کے واسطے وزارت داخلہ کی وساطت سے خیبر پختونخوا سے فرانٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پلاٹون کو منگواتے رہتے ہیں جن کو عرف عام میں ملیشیا اور بارڈرفورس کہا جاتاہے‘اس طریقہ کار پر ایک عرصے سے عمل کیا جا رہا ہے‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس ڈلیور نہیں کر پا رہی تو اس کی وجہ معلوم کر کے اب تک اس کی اس کمزوری کا ازالہ کیوں نہیں کیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھرمیں پولیس کے نچلے کیڈرز  میں پولیس کی بھرتی میں حد درجہ سیاسی مداخلت ہے‘ اکثر ارکان اسمبلی کی سفارشی چٹ پر بھرتی کی جاتی ہے اور میرٹ کوشاذ ہی اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ میدان عمل میں اس انداز سے بھرتی کی گئی پولیس ڈلیور نہیں کر رہی اس لئے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اگر  پولیس کے نچلے کیڈرز میں بھرتی کے نظام کو اس انداز میں مرتب کیا جائے کہ جس طرح  افواج پاکستان میں رنگروٹوں کو بھرتی کیلئے فالو کیا جاتا ہے اور بھرتی صرف اور صرف میرٹ پر کی جائے تو شاید پولیس کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی آ سکے۔ ٹریفک پولیس اوور سپیڈنگ کرنے والوں پر آہنی ہاتھ نہیں ڈال رہی‘ نہ بغیرڈرائیونگ لائسنس والوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے‘ بڑے  افسوس کا مقام  ہے کہ وطن عزیز میں سرکاری محکموں میں بھرتی اکثر سیاسی سفارشوں پر کی جاتی ہے جس کا پھر منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرکاری اہلکار ڈلیور نہیں کر پاتے اور گڈ گورننس کا خواب پورا نہیں ہو پاتا یہ جو ملک کے کئی شہروں میں سٹریٹ کرائمز پر کنٹرول نہیں پایا جا سکا اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ پولیس میں نہ تو پولیس کے جو فرائض منصبی ہوتے ہیں ان کی  قابلیت ہے اور نہ استطاعت‘بارڈر فورس ہو کہ ملیشیا یہ ا ن کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے کہ ان کو بغیر ٹرائیبل  ایریا کے کہیں اور جگہ استعمال کیا جائے ان کی بندوبستی علاقوں میں تعنیاتی سے قبائلی علاقوں کے نظم و نسق پر منفی اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا ہرصوبہ اپنے اپنے پولیس سسٹم میں پائی جانیوالی کمیوں کو دور کرنے کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے۔