کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی وطن عزیز کی معیشت اور قرضے دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کی مجبوری کیساتھ قومی بجٹ آج پیش کیا جا رہاہے درپیش اقتصادی منظرنامے میں گرانی کے طوفان میں شدت اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں اس سب کیساتھ عام شہری اور تنخواہ دار طبقہ ریلیف سے متعلق امید بھی رکھتا ہے بجٹ سے پہلے حسب معمول امید اور خدشات پر مبنی خبریں تسلسل کیساتھ چل رہی ہیں اس دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حکومتی قرضوں سے متعلق تشویشناک اعدادوشمار بھی جاری کئے جبکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے عائد شرائط کے باعث حکومت کسی سیکٹر میں کوئی ریلیف دینا بھی چاہے تو مشکلات آڑے آجاتی ہیں آئی ایم ایف ریلیف کو اپنے مقررہ ریونیو اور دوسرے اہداف کے حصول میں رکاوٹ قرار دے دیتا ہے‘ تادم تحریر مہیا ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق قومی بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کیلئے مختلف تجاویز زیر غور ہیں تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کیساتھ 2022ء کے ایڈہاک ریلیف کو بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے کا عندیہ بھی دیا جارہاہے وطن عزیز میں اقتصادی شعبے کے اندر کسی بھی فیصلے‘ امکان اور خدشے سے پہلے ضروری ہے کہ برسرزمین تلخ حقائق کو مدنظر رکھا جائے ایک ایسی معیشت جو کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہو سب سے پہلے اصلاح احوال کیلئے بڑے فیصلوں کی متقاضی ہے اکانومی کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم8ہزار600 ارب روپے ہوگیا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق6 سال پہلے کے مقابلے میں اس بل کا والیوم 2000 ارب تھااس وقت ضرورت عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کی ہے کہ جس میں عام شہری اپنی آمدنی کے تناسب سے گھریلو بجٹ قابل اطمینان صورت میں بنا سکے اس مقصد کیلئے مارکیٹ کنٹرول کیلئے موثر اقدامات مرکز اور صوبوں کو مل کر اٹھانا ہونگے تاکہ مصنوعی گرانی ذخیرہ اندوزی اور مضر صحت ملاوٹ کا خاتمہ ممکن ہو اس کیساتھ ضرورت معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کی ہے یہ کوئی آسان ہدف نہیں اس کیلئے قومی قیادت کو باہمی مشاورت سے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اس بحث میں الجھے بغیر کہ صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں۔
