یکم جولائی کو شروع ہونے والے مالی سال2025-26ء کیلئے قومی بجٹ پیش کردیاگیا ہے بجٹ سے ایک روز پہلے معمول کے مطابق قومی اقتصادی سروے پیش کیا گیا‘ اس معاشی جائزے کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق ملک کا اکاؤنٹ خسارہ سرپلس کی جانب بڑھا جبکہ افراط زر میں کمی ریکارڈ کی گئی‘ اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا جارہا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں واضح اضافہ ہوا ہے‘ سروے کے مندرجات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار2.7 فیصد رہی اس ضمن میں ذمہ دار عالمی اداروں کے پاس مہیا تفصیلات کے مطابق گلوبل جی ڈی پی2.8 فیصد رہی ہے‘ پاکستان سے برآمدات7جبکہ درآمدات 12فیصد بڑھی ہیں‘ اس سب کیساتھ ٹیکس نیٹ میں 26 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے قومی اقتصادی سروے میں بتایا یہ بھی گیا ہے کہ ملک کے اندر معاشی حکمت عملی کی سمت درست ہے اور یہ کہ مہنگائی پر قابو پالیاگیا ہے اقتصادی جائزہ ہو یا پھر قومی و صوبائی بجٹ ان میں اعدادوشمار کسی جگہ حوصلہ افزاء تو کسی حوالے سے مایوس کن ہوتے ہیں‘وطن عزیز میں جبکہ اکانومی انتہائی مشکلات کا شکار ہے اور مجموعی طورپر صورتحال میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار میں حکومتی قرضوں کا جو حجم بتایا جارہاہے وہ تشویشناک ہونے کے ساتھ اصلاح احوال کیلئے اقدامات کا متقاضی ہے‘اس سب کے باوجود اقتصادی اشاریوں میں جو بہتری دکھائی دے رہی ہے وہ قابل اطمینان ہونے کے ساتھ متقاضی ہے اس بات کی کہ اقتصادی شعبے میں اصلاح احوال کا عمل جاری رکھا جائے‘ درپیش صورتحال میں توجہ اس جانب بھی ضروری ہے کہ ملک میں تعلیم جیسے اہم سیکٹر کیلئے جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد بھی پورا خرچ نہیں ہوا قابل توجہ یہ بھی ہے کہ اقتصادی سیکٹر کے اعدادوشمار میں بہتری کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہاہے کہ مہنگائی پر قابو پالیاگیا ہے اس کے باوجود عام شہری کمر توڑ گرانی کے باعث اذیت کاشکار ہے اس کی بنیادی وجہ مارکیٹ کنٹرول کے لئے موثر انتظامات کا نہ ہونا ہے‘ بہتر ہوتے اقتصادی اعدادوشمار کے باوجود ایک سال میں 7لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ملازمت کیلئے ملک چھوڑ کر جانا بھی قابل تشویش ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ مرکز اور صوبے ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مثبت اقدامات اور اشاریوں کا فائدہ عام شہری تک پہنچ پائے اور اسے ریلیف کا احساس ہو۔
