بجٹ اعداد و شمار کے درمیان ریلیف

یکم جولائی 2025ء کو شروع ہونے والے مالی سال 2025-26ء کیلئے بجٹ پیش ہو چکا‘ میزانیہ کے پیچیدہ اعداد و شمار کے ساتھ چیدہ چیدہ نکات کے مطابق مقامی گاڑیاں اور سولر مہنگے ہو گئے ہیں‘ بینکوں سے سود کی آمدن پر 20 فیصد ٹیکس لگ گیا ہے‘ نان فائلر بینک سے اپنی رقم نکالنے پر 0.6 کی بجائے اب ایک فیصد ٹیکس دے گا یعنی ایک لاکھ روپے نکلوانے پر ہزار روپے ٹیکس دے گا‘ نان فائلر جائیداد اور گاڑی بھی نہیں خرید سکے گا‘ کاربن لیوی زیادہ شرح سے عائد ہونے پر پٹرول اور ڈیزل 2.5 فیصد فی لٹر مزید مہنگا ہو گا‘ آن لائن کاروبار پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہو گا‘ ڈیری مصنوعات کیلئے درکار مشینری کے ساتھ میڈیکل و سرجیکل آلات مہنگے ہوں گے۔ بجٹ کے اعداد و شمار کے اندر اپنے لئے ریلیف تلاش کرنے والوں کو جو اہم نکات ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں ملتے ہیں ان کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے‘ درآمدی گاڑیاں اور ڈبہ بند اشیاء کے ساتھ مشروبات کی قیمتوں کا گراف کم ہو گا‘ جائیداد کی خریداری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم ہونے کے ساتھ ود ہولڈنگ ٹیکس 4 سے کم کر کے 2.5 فیصد کر دیا گیا ہے‘ سٹامپ پیپر ڈیوٹی بھی 4 سے کم کر کے ایک فیصد کر دی گئی ہے‘ بجٹ میں کم آمدن طبقے کیلئے ہاؤسنگ سکیم جبکہ کسانوں کو قرضے دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ میزانیہ میں مہنگائی کی شرح 7.5 جبکہ اقتصادی ترقی کا ہدف 4.2 مقرر کیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ بجلی اور گیس کے منصوبوں میں سبسڈیز دینے کیلئے 1186 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اداروں کی سطح پر بجٹ جائزے میں جو اہم اعلانات سامنے آئے ہیں ان میں پاور سیکٹر کے 9 ہزار میگاواٹ بجلی معاہدے ختم‘ این ٹی ڈی سی کی 3 حصوں میں تقسیم‘ پی آئی اے اور روز ویلٹ جیسی ٹرانزیکشنز جلد مکمل کرنے کا عندیہ بھی شامل ہے۔ این ایف سی میں صوبوں کیلئے 8 ہزار 206 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے‘ نئے مالی سال کے بجٹ کا حجم 17 ہزار 573 ارب روپے ہے‘ خسارے کا والیوم 6 ہزار 501 ارب روپے ہے۔ عوامی ریلیف کے سوال پر وزیر خزانہ کا گزشتہ شب ایک ٹی وی انٹرویو میں کہنا تھا کہ بجٹ میں نچلے‘ متوسط اور تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دے دیا جبکہ حکومتی اخراجات کم سے کم کرنے کی کوشش کی ہے‘ ملک کی معیشت کو درپیش مشکلات اپنی جگہ حقیقت ہیں‘ اس تناظر میں میزانیہ کی تیاری اور آئی ایم ایف کی شرائط اپنی جگہ اس وقت ضرورت عام شہری کو برسرزمین نتائج کے حامل ریلیف کی ہے‘ یہ ریلیف مارکیٹ میں مہنگائی کا گراف کم ہونے پر مل سکتا‘ اس مقصد کیلئے مہنگائی کے دیگر عوامل کے خاتمے کیساتھ ضروری ہے کہ مارکیٹ کنٹرول کا میکنزم دیا جائے جس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مشاورت ناگزیر ہے ورنہ عام شہری کبھی اعداد و شمار سے ریلیف نہیں پا سکتا۔