بلاگ : یوم آزادی اُور جناح کا پاکستان

‏آج پاکستان اپنی خودمختاری کے 76 سال مکمل کرتے ہوئے خاطرخواہ توانا نہیں جبکہ آئین کے نفاذ کی نصف صدی بھی مکمل ہو چکی ہے! ایک ایسا آئین جس کی قوم حکمران دیکھنا چاہتی ہے۔ موقع ہے کہ اِس دن ہر خاص و عام بانئ پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی عینک سے حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 

ریاست کے معاملات کے بارے میں قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ غیر معمولی اُور غیرروائتی تھا جس کی تکمیل برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہونا چاہیئے تھا۔‏

یادش بخیر 11 اگست 1947 کو بانی پاکستان نے آئین ساز اسمبلی کے قیام، غیر جانبدارانہ قانون کی حکمرانی، مذہبی آزادی اور سماجی مساوات کے اصولوں کو واضح کیا تھا۔‏

‏پاکستان کے بانیوں نے ایک مساوی، خوشحال فلاحی ریاست کا تصور دیا۔ جو مطلق سول بالادستی کے ساتھ ہم آہنگی اور انصاف میں پروان چڑھتا تھا لیکن کئی دہائیوں بعد جو کچھ ابھرکر سامنے آیا ہے وہ ان کے نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ تو یوم آزادی کا دن یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا 'جناح کا پاکستان' ایک ایسا آئیڈیل ہے جو افسانے میں تبدیل ہو چکا ہے اُور جناح کے پاکستان کو فراموش کر دینا چاہیئے؟‏

آج پاکستان کے مسائل و مشکلات، ‏ہمارے زخم اور ہماری الجھنیں و پریشانیاں بڑی حد تک ہماری اپنی تخلیق کردہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے جناح کو ایک جدت پسند سے قدامت پسند کی شکل میں تشکیل دیا ہے تاکہ مروجہ بیانیوں کے مطابق اُن کے فرمودات سے اپنے مطلب کا کام لیا جا سکے اور ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میں عوام کی رائے کی بجائے طاقتوروں کے کردار میں اضافہ کیا جا سکے۔‏

‏دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی مسلسل خلاف ورزی نے مضبوط جمہوری کلچر کو پنپنے نہیں دیا اُور اس سے ایک اہم ضرورت نظر انداز ہوتی چلی گئی۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح بار بار سیاسی عمل معطل رہا۔ اقتدار اُور اختیار کے لئے منتخب و غیر منتخب عناصر کا گٹھ جوڑ اُور سوچ کا ایک ہونے کی ایک عام پاکستانی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔‏

سیاسی جماعتیں تخلیق ہوئیں اُور تین دہائیاں سیاسی تجربات کرنے کے بعد حکمرانی کا بائبرڈ ماڈل بھی ناکام ثابت ہوا جبکہ اجتماعی سیاسی سوچ پروان نہ چڑھ سکی۔ ملک کو جس سیاست نے جوڑ کر رکھنا تھا اُس نے تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ملک انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کے سفر میں نڈھال ہو گیا اُور عسکریت پسندوں کے عالمی مرکز میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔‏ 

‏ظاہر ہے کہ تعمیر و تعبیر اُور اصلاح کا کوئی جادوئی راستہ نہیں ہے لیکن اگر اقربا پروری، بدعنوانی اور جمہوری اداروں میں مداخلت کو روک دیا جائے تو اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ پاکستان کی نجات قانون کی حکمرانی، تعلیم، صحت، فلاح و بہبود اور میرٹوکریسی (اہلیت ہو فوقیت) میں پنہاں ہے۔ عوام کی طاقت کے ساتھ جناح رحمۃ اللہ علیہ کے خواب کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پاکستان قائد اعظم کے دل کے قریب تھا۔ پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا آئیڈیل تھا۔‏ 

یوم آزادی پر آزادی سے سوچیں کہ 
کیا پاکستان میرا اُور آپ کا بھی آئیڈیل ہے؟