زمینی حقائق سے چشم پوشی؟

کسی بھی ریاست میں منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی اس وقت بے ثمر ہو جاتی ہے جب اس میں زمینی حقائق سے چشم پوشی برتی جائے‘ وطن عزیز کو مختلف شعبوں میں مشکلات کا سامنا ہے ان مشکلات سے سرکاری ادارے اور ان کا آپریشن تومتاثر ہوتا ہی ہے اکانومی کے سیکٹر میں دشواریوں کا اثر عوام پر شدید گرانی کی صورت مرتب ہو کر اذیت ناک صورت اختیار کرتا ہے‘ ہمارے ہاں فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے عمل میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا موودہ وقت کی ضروریات کیساتھ آنےوالے وقت میں پیش آنیوالی دشواریوں کا احساس بھی ناگزیر رہتا ہے‘ اس سب کیساتھ ضروری یہ بھی ہوتا ہے کہ پورے انتظامی آپریشن میں ترجیحات کا تعین کیا جائے‘ اس میں انفراسٹرکچر اور سروسز سمیت اداروں کا آپریشن بھی شامل ہے‘ بہتر طرز حکمرانی کا اہم تقاضہ یہی ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں بروقت اقدامات اٹھائے جائیں اس وقت ملک کو ضرورت اقتصادی شعبے کے استحکام کی ہے تو اس بحث میں الجھے بغیر کہ ملک کس طرح اس حالت پر پہنچا کہ قرضوں کے بغیر اب کوئی چارہ ہی نہیں رہا اور یہ کہ اب قرضوں کا حصول بھی کڑی شرائط کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا چلا جارہا ہے‘ ضرورت اس صورتحال سے نکلنے کی ہے جس کیلئے پائیدار پالیسیاں ترتیب دینابھی ضروری ہے‘ معیشت کیساتھ جڑے توانائی کے شعبے کو بھی دیکھا جائے کہ جس میں بحران کا نتیجہ اس وقت نہ صرف مجموعی ملکی اقتصادیات کو متاثر کر رہاہے بلکہ اس سے عام صارف بھی بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث اذیت سے گزرتا ہے‘ اسی سیکٹر میں آبی ذخائر ضرورت کے مطابق نہ ہونے پر آج ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم اور دوسری زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہے اقتصادیات کے حوالے سے درپیش مشکلات کیساتھ لوگوں کو سروسز سے متعلق دشواریوں کا بھی سامنا ہے ملک کاعام شہری اپنے بجٹ میں سے نہایت مشکل کیساتھ گنجائش نکال کر بجلی و گیس کے بل جمع کراتا ہے اس شہری کو اس سب کے باوجودگھنٹوں بجلی و گیس ہی کی لوڈشیڈنگ سے گزرنا پڑتا ہے ‘ بجلی و گیس کی ترسیل کے نظام میں خرابیاں علیحدہ سے بڑے مسئلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔موسم گرما میں آندھی کا ایک جھونکا یا پھر معمولی بارش کے نتیجے میں گھنٹوں بجلی کی بندش معمول ہے‘ ایسے میں اضافی لوڈشیڈنگ علیحدہ سے اذیت ناک ہے کہ جو کسی بھی علاقے میں بجلی کا بل جمع نہ کرانے والوں کی سزا کے طور پر ان لوگوں کےلئے بھی کی جاتی ہے کہ جو بڑی باقاعدگی سے بل جمع کراتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم ایسے صارفین کیلئے ریلیف کا کوئی عمل تجویز کیا جائے جو انتہائی مشکل حالات میں بھی باقاعدگی سے بل جمع کراتے ہیں‘یہ بھی ضروری ہے کہ بل کی ادائیگی کی تاریخ مہینے کے آخری ایام میں نہ رکھی جائے ۔