زمینی حقائق کا احساس و ادراک

وطن عزیز میں جمعہ کے روز ایک جانب سیاسی بیانات میں ایک دوسرے پر الفاظ کی گولہ باری کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف اکنامک افیئرز ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں تشویشناک اعدادوشمار دیئے‘ اسی روز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے صارفین پر967 ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالنے کی درخواستیں دینے کی رپورٹس بھی آئیں‘ جبکہ یہ رپورٹس بھی آئیں کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اپنی شرائط کی فہرست میں پٹرول پر18فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا بھی کہا ہے‘ اسی روز ادارہ شماریات کی جانب سے رپورٹ میں9اشیاءکی قیمتیں مزید بڑھنے اور سالانہ بنیادوں پر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گرانی کی شرح 29 فیصدریکارڈ ہونے کا کہا گیا‘ اسی روز حصص کی منڈی میں صورتحال بھی پریشان کن رہی اس حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ سرمایہ کاروں کے55 ارب روپے ڈوب گئے‘ اکنامک افیئرز ڈویژن کا یہ بھی اپنی رپورٹ میں بتانا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں پاکستان نے6ارب67کروڑ80لاکھ ڈالر کابیرونی قرضہ لیا‘ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی امداد کے اہداف17سے کم کرکے11 ارب ڈالر کر دیئے گئے ہیں‘ سیاست میں گرما گرمی کے جاری اس سلسلے میں ضرورت ملک کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے حکمت عملی کی جانب بھرپور توجہ دینے کی بھی ہے وقت کاتقاضہ ہے کہ صورتحال کے مزید پریشان کن صورت اختیار کرنے سے قبل ہی موثر پیش بندی کرلی جائے اس پیش بندی کا ثمر آور ہونا صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس میں برسرزمین تلخ حقائق سے چشم پوشی نہ برتی جائے‘ اس میں ہمہ جہت پالیسی تشکیل دینا ہوگی‘ جس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا یقینی یہ بات بھی بنانا ہوگی کہ اس سارے عمل میں طے شدہ منصوبہ بندی حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے۔
قیمتوں کیساتھ معیار؟
مہنگائی کے طوفان میں شدت کے پیش نظر نرخنامے کے اجراءاور مارکیٹ میں اس کی پابندی کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے سرکاری افسروں کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات بھی تفویض کئے گئے ہیں جبکہ پشاور کی سطح پر تو گزشتہ روز کمشنر خود بھی مارکیٹ میں پہنچے‘ نرخناموں کا اجراءاور ان کی پابندی قابل اطمینان ہے تاہم کھانے پینے کی اشیاءکا معیار یقینی بنانا بھی ضروری ہے متعدد اشیائے خوردونوش ایسی ہیں کہ جن کے نرخ سرکاری سطح کے طے شدہ ہی رہے جبکہ معیار بری طرح متاثر ہوتا ہے اس سے ساری ایکسرسائز غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔