علاج کیلئے مہیا سہولیات؟

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے صوبے میں اقتدار سنبھالتے ہی صحت کارڈ کی بحالی کا اعلان کیا جس پر عوام کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ یہ اعلان صرف اعلان ہی نہیں رہا‘ یکم رمضان سے اس کارڈ کے تحت خدمات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے‘ اس میں کمی بیشی اور وقت کے ساتھ سروسز کے دائرے میں وسعت اپنی جگہ ہے‘ منگل کے روز وزیراعلیٰ نے صوبے میں لیور‘ بون میروٹرانسپلانٹ کے ساتھ نیورو سرجری کے مراکز قائم کرنے کا اعلان کیا‘ وزیراعلیٰ نے سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسز کی سہولیات 24 گھنٹے فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی‘ وزیراعلیٰ نے اس اعلان کو بھی صرف اعلان نہیں رہنے دیا بلکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کو اس کیلئے درکار فنڈز فی الفور جاری کرنے کا بھی کہہ دیا ہے‘ اس مقصد کیلئے عمارات کی تعمیر کیلئے تاخیر کی گنجائش بھی نہیں رہنے دی گئی اور وزیراعلیٰ نے فی الوقت امراض گردہ کے علاج کیلئے قائم سنٹر میں لیور ٹرانسپلانٹ محدود پیمانے پر قائم کرنے کا کہہ دیا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ قابل اطمینان اور حکومت کی سطح پر عوام کو علاج کے حوالے سے درپیش مشکلات کا عکاس ہے‘ اس سب کے ساتھ ضرورت صوبے میں علاج کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے موجود ایک بڑے انفراسٹرکچر میں پہلے سے فراہم طبی سہولیات کی بہتر انداز میں فراہمی کیلئے کنکریٹ اقدامات کی بھی ہے‘ یکے بعد دیگرے مرکز اور صوبوں میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیتی ہیں جبکہ ملک کا عام شہری سرکاری علاج گاہوں میں سروسز کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتا‘ سرکاری شفاخانوں میں رش اور وسائل بمقابلہ مسائل کی کمی سے صرف نظر ممکن نہیں تاہم اس کے ساتھ چشم پوشی اس بات سے بھی ممکن نہیں کہ خدمات کی فراہمی کے پورے نظام میں موجود سقم برسرزمین دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری علاج گاہوں میں گیٹ پر ٹرالی اور وہیل چیئر کے حصول سے لے کر مریض کی واپسی تک کے عمل میں بے شمار مشکلات آتی ہیں۔ ہسپتالوں میں رش کا عالم یہ ہے کہ معائنے کیلئے جانے والے بعض مریض صبح سے لے کر معائنے کا وقت ختم ہونے تک انتظار کرنے کے بعد شام کو نجی اداروں میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معائنے کے بعد ٹیسٹ اور ریڈیالوجی میں تشخیص کا کام مکمل ہونے پر وقت اتنا لگ چکا ہوتا ہے کہ شعبہ بیرونی مریضان اس ٹائم تک بند ہو چکا ہوتا ہے‘ اکثر اوقات ہسپتالوں کے تجویز کردہ ٹیسٹ‘ سکین اور ایکسرے وغیرہ کیلئے مریضوں کو نجی اداروں میں جانا پڑتا ہے‘ اسی طرح متعدد دیگر مسائل متقاضی ہیں کہ چیک اینڈ بیلنس کے محفوظ نظام ‘مہیا وسائل کے درست استعمال اور دیگر انتظامی اصلاحات پر توجہ دے کر سروسز کی فراہمی یقینی بنائی جائے‘ اس سب کیلئے زمینی حقائق کا ادراک ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ذمہ دار حکام موقع پر جا کر صورتحال کا مشاہدہ کریں اور اس کی روشنی میں حکمت عملی ترتیب دی جائے۔