سخت شرائط کا عندیہ اور اصلاح احوال

مرکز اور صوبوں میں قائم ہونےوالی نئی حکومتیں اپنے اپنے لیول پر درپیش صورتحال کے تناظر میں حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں‘ جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف نے بتایا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا ایک اور پروگرام ہمارے لئے ضروری ہے اور یہ کہ اس سے معیشت میں استحکام آئے گا‘ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب کی مرتبہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوں گی‘ اب ان سخت شرائط کا بوجھ ایک مرتبہ پھر عوام ہی کو اٹھانا ہوگا‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ملک کی اکانومی کو سخت دشواریوں کا سامنا ہے ‘ان دشواریوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دینے اور اس حوالے سے ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری کی بجائے ضرورت اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کی ہے ‘اس کیلئے یہ سوچ ضروری ہے کہ کب تک قرض اٹھائے جائینگے اور یہ کہ کب تک ان قرضوں کیلئے سامنے آنے والی شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالا جائیگا وزیراعظم شہبازشریف اس حوالے سے ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ قرضوں کے سلسلہ کو روکنا ہوگا اس مقصد کیلئے یقینا تلخ فیصلے ناگزیر ہونگے‘ تاہم ان فیصلوں کا لوڈ اگر غریب عوام پر کم سے کم پڑے اسکے ساتھ ایسے اقدامات بھی ناگزیر ہیں کہ جن میں عوام کو ریلیف کا احساس ہو۔درپیش صورتحال کے تناظر میں صوبوں کی سطح پر خیبرپختونخوا میں دیگر اقدامات کیساتھ صوبائی حکومت نے صوبے میں بنجر اراضی قابل کاشت بنانے اور آبی وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کیلئے جدید آبپاشی نظام متعارف کرانے کی ہدایت جاری کی ہے‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور کا کہنا ہے کہ بنجر اراضی سیراب کرنے کیلئے مصنوعی آبی ذخائر بنائے جائینگے اس مقصد کیلئے کلسٹر ٹیوب ویلز کا نظام بھی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ وزیر اعلیٰ نے سمال ڈیمز کا ڈیٹا ترتیب دینے کا بھی کہا ہے‘ وزیر اعلیٰ نے پانی کی چوری روکنے کیلئے سزاﺅں میں اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے خیبرپختونخوا میں زرعی اراضی سیراب کرنے کے حوالے سے ہونیوالے فیصلے قابل اطمینان ضرور ہیں تاہم ان کا ثمر آور ہونا ان پر عملدرآمد کیلئے محفوظ نظام کیساتھ جڑا ہوا ہے‘ اگر اس سارے عمل میں کڑی نگرانی نہ کی گئی اور اس کیلئے ٹائم فریم کا تعین نہ کیا گیا تو سب کچھ فائلوں میں ہی چلتا رہے گا اور برسرزمین نتائج دکھائی نہیں دیں گے‘ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کے بڑے حصے کا انحصار زراعت پر ہے ‘چاہئے تو یہ کہ پاکستان زرعی اجناس برآمد کرکے زرمبادلہ کمائے اس کے برعکس ہماری امپورٹ میں زرعی اجناس کا بڑا حصہ شامل ہے کیا ہی بہتر ہو کہ مرکزاور سارے صوبے زراعت کے سیکٹر پر توجہ مرکوز کریں اور چھوٹے و مصنوعی ڈیم بنانے کے ساتھ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر یقینی بنائی جائے اس مقصد کے لئے باہمی مشاورت سے ہونیوالے فیصلے دیرپا ہونگے۔