تشویشناک اعدادوشمار



وطن عزیز کے گرما گرم سیاسی ماحول میں عالمی بینک کی رپورٹ میں آنے والے اعدادوشمار اصلاح احوال کیلئے بھرپور توجہ کے متقاضی ہیں‘ عالمی بینک کے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے مہنگائی کو50سال کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں گرانی کا گراف1974ءکے بعد سب سے زیادہ رہا‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ملک کی معیشت ایک عرصے سے مشکلات کاشکار ہے ان مشکلات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا ہے جبکہ ہر آنے والی حکومت صورتحال کی ذمہ داری گزشتہ دور حکومت پر ڈال دیتی ہے اس حوالے سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ بھی عرصے سے جاری ہے‘ اس دوران اصلاح احوال کی باتوں میں معمول کے اجلاس منعقد ہونے اور ملٹی میڈیا پر اعدادوشمار کے ساتھ بریفنگ کی رپورٹس آتی رہتی ہیں کسی بھی ریاست میں معیشت کے شعبے میں مشکلات کا اثر عام شہری پر بھی ضرور پڑتا ہے وطن عزیز میں یہ اثرات اس حوالے سے انفرادیت کے حامل ہیں کہ قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے جبکہ ان شرائط کا سارا بوجھ عام شہری کو گرانی کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے وطن عزیز میں عالمی بینک مہنگائی کو50سال کی بلند ترین سطح پر قرار دیتا ہے جبکہ برسرزمین حالات اس سے بھی زیادہ تشویشناک اس لئے ہیں کہ مارکیٹ میں مصنوعی گرانی اور ذخیرہ اندوزی بھی اپنی جگہ موجود ہے جس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کافی ثابت نہیں ہو پا رہے‘ مہیا اعدادوشمار کے مطابق صرف توانائی کے شعبے میں افراط زر50.6 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ شرح40.6 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ مالی سال2023-24 کے پہلے6 ماہ میں اوسط مہنگائی28.8 فیصد تھی جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ شرح25فیصد تھی اس سارے منظرنامے میں عالمی بینک کی جانب سے اصلاح احوال کیلئے بعض تجاویز بھی آرہی ہیں جن میں سرکاری ملکیتی اداروں کو شعبوں میں تقسیم کرنے مالی وسائل پر توجہ دینے اور گورننس یقینی بنانے کا بھی کہا جا رہا ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف نے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی پہلا اجلاس معیشت کے حوالے سے طلب کیا اور متعدد امور پر بات ہوئی اس کے علاوہ بھی مسلسل اس حوالے سے بیانات آتے رہتے ہیں‘ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اکانومی سیکٹر کا بگاڑ برسوں سے چلا آرہاہے جس کو سنوارنے میں بھی کئی برس لگنے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ فوری نوعیت کے اقدامات میں تاخیر نہ کی جائے ‘وسطی اور طویل مدت کی پالیسیوں کی ترتیب کے ساتھ ناگزیر ہے کہ ان پالیسیوں کو اس انداز سے محفوظ بنایا جائے کہ حکومتوں کی تبدیلیوں سے یہ متاثر نہ ہونے پائیں۔